یہ واقعہ ایک خاندان کا ہے، جہاں وراثت اور جائیداد کے معاملات میں ذہنی مریض کے حقوق کو موضوع بنایا گیا۔ یہ پاکستان کے قوانین اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں ذہنی مریضوں کے وراثتی حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

ایک گاؤں میں رہنے والے علی بخش کے انتقال کے بعد ان کی جائیداد کا مسئلہ اٹھا۔ علی بخش کے چار بچے تھے: دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ بڑا بیٹا احمد ایک ذہنی بیماری میں مبتلا تھا اور گاؤں کے لوگ اکثر یہ کہتے تھے کہ احمد کو جائیداد میں حصہ نہیں ملنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی جائیداد کا صحیح استعمال نہیں کر سکتا۔ لیکن علی بخش کے چھوٹے بیٹے، عمر، نے اس بات پر زور دیا کہ احمد کو بھی اپنے والد کی جائیداد میں برابر کا حصہ ملنا چاہیے۔

وراثت میں ذہنی مریض کا حصہ

عمر نے اپنے گاؤں کے بڑوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اسلامی شریعت اور پاکستان کے قوانین کے مطابق احمد کو بھی وراثت کا حق حاصل ہے۔ اس نے کہا:

"اسلامی شریعت کہتی ہے کہ ذہنی بیماری کسی بھی شخص کو اس کے وراثتی حقوق سے محروم نہیں کر سکتی۔ احمد بھی اپنے والد کی جائیداد میں اتنا ہی حق رکھتا ہے جتنا ہم باقی بہن بھائی رکھتے ہیں۔"

یہ سن کر گاؤں کے کچھ لوگ چونک گئے کیونکہ ان کے خیال میں ذہنی مریض کو جائیداد میں حصہ دینا غیر ضروری تھا۔

قانونی پہلو

عمر نے مزید بتایا کہ پاکستان میں ذہنی مریضوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے والے قوانین موجود ہیں:

مسلم فیملی لآز آرڈیننس 1961: یہ قانون تمام وارثوں کے لیے وراثتی حقوق کا تعین کرتا ہے، چاہے وہ ذہنی مریض ہوں یا نہ ہوں۔

مینٹل ہیلتھ آرڈیننس 2001: اس کے تحت ذہنی مریض کی جائیداد کی حفاظت کے لیے عدالت ایک سرپرست مقرر کر سکتی ہے۔

گارڈین شپ اینڈ وارڈز ایکٹ 1890: اس قانون کے تحت ذہنی مریض کی جائیداد کی دیکھ بھال کے لیے ایک گارڈین مقرر کیا جاتا ہے۔

سرپرست کا کردار

گاؤں کی پنچایت نے مشورہ دیا کہ عدالت میں درخواست دے کر احمد کے لیے ایک سرپرست مقرر کیا جائے جواس کی جائیداد کی حفاظت کر سکے۔ عمر نے عدالت میں درخواست دی، اور عدالت نے احمد کے لیے ایک سرپرست مقرر کیا۔ اس سرپرست کی ذمہ داری تھی کہ:

احمد کی جائیداد کی حفاظت کرے۔

احمد کی ضروریات کے مطابق مالی وسائل کا صحیح استعمال کرے۔

جائیداد کو غیر قانونی طریقے سے فروخت ہونے سے بچائے۔

Property laws for the mentally ill in Pakistan 2
 

اسلامی اصولوں کی رہنمائی

عمر نے گاؤں کے لوگوں کو یہ بھی یاد دلایا کہ اسلام ذہنی مریضوں کے حقوق کا خاص خیال رکھتا ہے۔ اس نے کہا:

"حدیث اور فقہ کے مطابق، ذہنی مریض کا مال اس کے لیے امانت ہے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے حقوق کا تحفظ کریں۔"

آخرکار، احمد کو اس کے والد کی جائیداد میں اس کا حصہ ملا، اور عدالت کے مقرر کردہ سرپرست نے اس کی جائیداد کی ذمہ داری لی۔ گاؤں کے لوگوں نے اس معاملے سے بہت کچھ سیکھا کہ ذہنی مریضوں کے حقوق کا تحفظ کرنا نہ صرف قانونی بلکہ اخلاقی اور مذہبی فریضہ بھی ہے۔

سبق

یہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان میں ذہنی مریضوں کے جائیداد کے قوانین شریعت اور ملکی قوانین کے تحت ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ اگر کہیں ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہو، تو قانونی کارروائی کے ذریعے ان کے حقوق کی بحالی ممکن ہے۔


 




Share this post:

Related posts:
Google Maps Satellite: Check Any Property or Land Without Visiting!

Imagine you want to buy a property or check farmland, but you cannot visit the place. No problem! Just open Google Maps Satellite View on your phone or computer, and you can see everything: land area, roads, and nearby places.

IMF Tax Cut On Property In Pakistan 2025: Key Updates for Realtors

Discover the latest 2025 IMF-backed property tax reforms in Pakistan, including cuts and policy changes, and learn how they impact real estate professionals.​